اسلام آباد : چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ کہ بڑے بڑے مگر مچھوں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے، ایک سال نیک نیتی اورنیک جذبےکےساتھ ملک کودےدیں، ایک سال بعد دیکھیں گے ملک کانقشہ بدل جائے گا
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی پالیسی سے متعلق اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انصاف فراہم کرناہماری ذمہ داری ہےمزدوری نہیں، میں آپ سےمزدوری نہیں کرانا چاہتا اپنی ذمہ داری پوری کریں، لوگوں کوشکایت ہے اس کی ذمہ داری میں لیتا ہوں، آپ لوگوں سے درخواست ہے بڑے بھائی کو شرمندگی سے بچانا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کاحصہ ہیں کسی بھی ریاست کا اہم ترین ستون ہوتا ہے، عدلیہ اپنی کارکردگی نہیں دکھائے تو ریاست بیٹھ جاتی ہے، چیف جسٹس پشاوراورسندھ ہائی کورٹ نے کہا ٹارگٹس دےدیں، مجھے ٹارگٹ دل اور جذبے سے چاہئیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کمرہ جیسےمعاملات انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنناچاہیے، گاڑی نہیں ملی کمرہ نہیں اسٹاف نہیں یہ مسائل ہیں، مسائل کو راستے کی رکاوٹ نہ بننے دیں،ان میں رہ کر کام کرنا ہے، منصفی نوکری سمجھ کر کرینگے تو جذبے سے کام نہیں کرپائیں گے۔
انکا کہنا تھا مسائل کے حل کیلئےاےٹی سی میں ججز کو تعینات کیا گیا، ججز کو اسپیشل ٹاسک دیا گیا ہے، احتساب عدالت میں موجودججزکوکوئی عام کام نہیں دیا، بڑے بڑے مگر مچھوں کو قانون کے کٹہرےمیں لاناہے، مین اسٹریم سیٹ اپ میں آپ 2قدم آگے ہیں
چیف جسٹس نے کہا کہ بہت بدنصیب لوگ ہوتےہیں جو بے وطن ہوتےہیں، فخر ہوتا ہے میں بھی پاکستان کا ایک شہری ہوں، جس وطن کیلئے قربانیاں دیں کیا اس ماں کاحق اداکر رہے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ چینی چیف جسٹس نےکہاترقی کاراز صرف خدمت کاجذبہ ہے، آئندہ نسلوں کویہ ملک اچھانہیں دےکرگئےتوپھرکچھ نہیں دیا ایک سال نیک نیتی اورنیک جذبےکےساتھ ملک کودےدیں، ایک سال بعد دیکھیں گےملک کانقشہ بدل جائےگا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ قوم کی خدمت نہیں کرسکتےتوآپ لوگ اپناوقت ضائع نہ کریں، ہائیکورٹ کےجج کی تنخواہ 40سے45ہزار روپے ہے، ہمیں اتنی مراعات ملتی ہیں ہمارا فرض نہیں قوم کی خدمت کریں، ججزکودرپیش چیلنجزانصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننےچاہئیں، ایسے ججز کو بھی دیکھا جن کے روم میں پنکھے بھی نہیں تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں موجودہ حالات اورقانون کےمطابق انصاف دیناہے، انصاف میں کسی قسم کا امتیاز نہیں برتنا، ایک ریاست کے3ستون ہوتے ہیں، ایک پارلیمنٹ ہے جو آئین کی رو سے سپریم ہے، جو آئین اور قانون بنے ہم ان پرعمل کرتے ہیں، ان ہی قوانین پر عمل کرنا اور انصاف فراہم کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ججزسےامیدرکھتاہوں انہیں قانون پرمکمل گرفت ہو، ججزسب سے زیادہ تنخواہ حاصل کرنےوالےسرکاری ملازم ہیں ججز 22گریڈ کے سرکاری افسر سے زیادہ تنخواہ حاصل کرتےہیں، پارلیمنٹ کاکام قانون بناناہے عدلیہ کاکام اس قانون پرعمل کرناہے، کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کیسز کو ایک ماہ میں نمٹایا کریں۔
جسٹس ثاقب نثار کا مزید کہنا تھا کہ خدا کے واسطےاس ملک میں انصاف کیلئے جو کچھ کرسکتے ہیں کر جائیں، یہ کہہ کہہ کرتھک گیا ہوں کہ ایک مہینے میں فیصلہ دیا کریں، کیسز آرہے ہیں جس میں ایک ایک سال بعد فیصلے لکھے گئے، میں اورآپ کل ججز نہیں ہوں گے تو کوئی پہچانے گا بھی نہیں، نظام کودرست کرکے چلے جائیں گے تو خود بخود بہتری آتی جائےگی۔
انھوں نے کہا کہ عہد کریں ہمارے لئےپیسےکی کوئی اہمیت نہیں ہے، بچوں کو کوٹھی اورپراڈو دے کر جاؤ گے تو اس کا کچھ نہیں بنےگا، انصاف کابول بالا کرکےجائیں گےتومعاشرے میں بہتری آئے گی، لوگوں کےبنیادی حقوق کوبحال کرناہےیہ ہماری ذمہ داری ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ واحدعدالت ہےجسےسوموٹوایکشن کااختیارہے، عوامی حقوق کیلئے سو موٹو ایکشن لئے اور آگے بھی لیتے رہیں گے، ججزکوکسی خوف یامصلحت کےتحت ڈیوٹی سےگریز نہیں کرنا، اس ملک کوایک بہترملک بنانے کے لئے جدوجہد کرنی ہے، کیا موجودہ حالات کے تحت قانون اپ ڈیٹ ہوا ہے؟
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ججزکی مراعات ان کاحق ہے، مراعات میں کوئی کمی بیشی ہےتوبذریعہ رجسٹراربتادیں، مسائل حل کرنےکی پوری کوشش کریں گے، تجویز ہے عدلیہ کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول چیف جسٹس کے پاس ہوناچاہیے، ایک جج صاحب کہتے ہیں بے سکون ہو کر کوئی جج انصاف کر سکتا ہے؟
انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کوڈی ریل ہونےنہیں دینگے، غلطیاں سب سےہوئیں ہم سےبھی ہوئیں ہوں گی، ہم نے اچھے کام بھی کئے، ان کےحوالےکیوں نہیں دیئےجاتے، مفاد عامہ کی فراہمی ہماری ذمہ داری ہے، کبھی کبھی ایسے کیسز آجاتےہیں ازخودنوٹس لینے پڑتے ہیں،چیف جسٹس
انھوں نے کہا کہ کوئی بتا دے بنیادی حقوق کے نوٹس لے کرخلاف ورزی کی، تعلیم،صحت،صاف پانی پر ازخودنوٹس لے کر کیا غلط کیا؟ آج تہیہ کریں کہ چیف جسٹس کی مہم کاحصہ بنناہے، سازشوں کی باتیں کرنےوالوں کیلئےپیغام ہےعدلیہ آزادہے، میرےکسی جج کےاوپردباؤ نہیں اس کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment
What do you think about it